رائش ٹاگ آگ واقعہ، جو 27 فروری 1933 کو جرمنی کے برلن کے رائش ٹاگ پرلیمنٹ عمارت کی تابندگی کی علامت بن گیا۔ اس واقعہ کی شروعات میں نازی حکومت اور اس کے رہنما آڈولف ہٹلر کو موٹی دھان لینے کا الزام تھا۔
27 فروری 1933 کے دن کی صبح ، رائش ٹاگ پرلیمنٹ عمارت میں آگ کا اندازہ لگایا گیا۔ جب فائر برگیڈ آگ بجلی کے عطاپرستوں کو بلائے تو یہ جان گئے کہ عمارت آتشزدہ ہو چکی ہے۔ آگ پوری عمارت کو جھاڑوئیں لگانے والے تعمیر کاروں کو گھیر لیا۔ چند ہی دیر میں آگ کو کنٹرول کیا گیا تاہم عمارت پر بڑے نقصان کا اثر پڑا۔
جب تحقیقات شروع ہوئیں تو اس میں سے نازی حکومت نے فائر برگیڈ کے مشہور کمانڈر ویلهلم فرانز کو گرفتار کیا۔ ویلهلم فرانز کو بعد میں تحقیقات سے آزاد کر دیا گیا لیکن نازی حکومت نے اپنے مخالفین کو گرفتار کرنے کے لئے یہ واقعہ استعمال کیا۔ وہ کہتے تھے کہ کمیونسٹس ہیں جو رائش ٹاگ عمارت میں آتشزدگی کا ذمہ دار ہیں۔
رائش ٹاگ آگ واقعہ نازی حکومت کے لئے بہت بڑا سبب ثابت ہوا۔ اس کے بعد نازی حکومت نے اپنے دشمنوں کے خلاف کاروائی کی اور جرمنی میں نئے قوانین اور ضابطے لاگو کیے۔ اس واقعہ کی راہ پر نازی حکومت نے اپنی زبردستی کی ، آزادیوں کو محدود کیا اور مخالفین کو دبانے کی کوشش کی۔ نازی حکومت نے بعد میں بھی اس کا استعمال کیا جب انہیں برلن کے بڑے شہری عمارتوں کی تابندگی پر قابضہ کرنا پڑا۔
رائش ٹاگ آگ واقعہ میں حقیقت کیا تھی ، اس کے پیچھے سچائی کیا تھی ، یہ معمولی طور پر نازی حکومت کی منصوبہ بندی کا نتیجہ مانی جاتی ہے۔ تاہم کچھ لوگ اس بات کا احتمال بھی رکھتے ہیں کہ یہ آگ خود نازی حکومت کے لوگوں نے آگ لگائی تھی تاکہ وہ اپنے مخالفین کے خلاف کاروائی کر سکیں۔ اس واقعہ کے بارے میں تجزیہ کرتے ہوئے کچھ ماہرین نے مذکورہ پریشانی کا اظہار کیا ہے۔ یہ واقعہ جرمن تاریخ کی ایک بڑی سازشی تصویر ہوسکتی ہے جس کے بارے میں پیچیدگیوں کی بنا پر ہم ہمیشہ کے لئے سچائی نہیں جان سکتے